صفحات

تلاش کریں

جہانگیرخان (کھلاڑی)

دنیا میں مختلف کھیلوں میں کھلاڑی شہرت کی بلندیوں کو چھوتے رہے اور پھر ماضی کی تاریکیوں میں تحلیل ہوتے رہے اور ا ن کی جگہ نئے نئے کھلاڑی اپنا سکہ جماتے رہے لیکن بعض کھلاڑی ایسے ہیں جن کا نام ہمیشہ روشن آفتاب کی مانند چمکتا دمکتا رہے گا ایسے ہی ایک کھلاڑی جہانگیر خان ہیں جنہوں نے اسکواش کی دنیا میں وہ لازوال شہرت حاصل کی جس کی کوئی بھی تمنا کرسکتا ہے۔ یہ قومی ہیرو اور عالمی نمبر ون اسکواش کا چیمپئن10 دسمبر 1963ءکوکراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کا آبائی گھر (نواں قلعہ ) پشاور تھا ان کے والد روشن خان خود بھی اسکواش کے معروف کھلاڑی تھے اور 1957ءمیں برٹش اوپن اسکواش ٹورنامنٹ جیت چکے تھے۔ روشن خان اپنے بڑے بیٹے طورسم خان کواسکواش کا عالمی چیمپئن بنانا چاہتے تھے اور ان کی تمام توجہ بھی انہیں پر مرکوز تھی کہ 26 نومبر 1979ءکو طورسم خان وفات پاگئے۔ طورسم خان کی وفات کے بعد روشن خان نے جہانگیر خان کو اسکواش کے مقابلوں کے لیے تیار کیاجنہوں نے اپریل 1981ءمیں پہلی مرتبہ برٹش اوپن اسکواش ٹورنامنٹ کا فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔ 28 نومبر 1981 کو دنیا صحیح معنوں میں جہانگیر خان کے نام سے آشنا ہوئی تھی جب وہ ٹورنٹو میں کھیلی گئی ورلڈ اوپن کے فائنل میں آسٹریلیا کے جیف ہنٹ کو شکست دے کر دنیا کے سب سے کم عمر ورلڈ چیمپیئن بنے.
آنے والے برسوں میں یہ برٹش اوپن صرف اور صرف جہانگیرخان کے نام سے یاد رکھی جانے لگی جنہوں نے لگاتار دس سال یہ ٹائٹل جیت کر ایک نئی تاریخ رقم کی۔ جہانگیرخان سے قبل سب سے زیادہ آٹھ مرتبہ برٹش اوپن جیتنے کا ریکارڈ جیف ہنٹ کا قائم کردہ تھا۔جیف ہنٹ کہتے ہیں کہ انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ جہانگیرخان مسلسل دس سال برٹش اوپن جیتیں گے یقیناً یہ ایک کارنامہ ہے۔
جہانگیرخان کا کہنا ہے کہ جب وہ جیف ہنٹ کے ریکارڈ کے قریب آرہے تھے تو پوری قوم کی توقعات میں بھی اضافہ ہوگیا تھا اور وہ بہت زیادہ دباو¿ محسوس کررہے تھے لیکن چونکہ برٹش اوپن سے ان کی جذباتی وابستگی ہوچکی تھی اس لیے وہ اس ٹورنامنٹ کے لیے سخت ٹریننگ کرتے تھے اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آخری چار برسوں میں انہوں نے راڈنی مارٹن اور جان شیر خان کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔

ابتدائی زندگی کے اتار چڑھاؤ:

سکواش کے عظیم کھلاڑی جہانگیر خان کو اپنی ابتدائی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ دیکھنے پڑے۔ 12 سال کی عمر تک پہنچنے تک ان کے دو ہرنیا کے آپریشن ہو چکے تھے لیکن سب سے بڑا دھچکہ بڑے بھائی کی موت تھی جس نے ان کی دنیا ہی بدل دی۔اگر کوئی دوسرا ہوتا تو وہ کب کا اپنے خوابوں کو سمیٹ کر بیٹھ جاتا لیکن جہانگیرخان کے مضبوط ارادوں نے انھیں سکواش کی تاریخ کا سب سے کامیاب کھلاڑی بنا ڈالا۔
جہانگیر خان کے لیے ورلڈ چیمپیئن بننا دراصل ایک خواب کی تعبیر تھا جسے کسی اور نے نہیں بلکہ ان کے اپنے بڑے بھائی طورسم خان نے دیکھا تھا لیکن زندگی نے وفا نہیں کی اور جب جہانگیرخان ورلڈ چیمپیئن بنے تو وہ اس دنیا میں نہیں تھے۔
اسے اتفاق کہیے کہ جس روز جہانگیر خان ورلڈ چیمپیئن بنے اس سے ٹھیک دو سال پہلے یعنی 28 نومبر 1979 کو طورسم خان کا انتقال ہوا تھا۔ وہ ایڈیلیڈ میں آسٹریلین اوپن کا میچ کھیلتے ہوئے سکواش کورٹ میں گر پڑے۔یہ منظر دیکھنے والوں میں ہدی جہاں بھی موجود تھے۔ شائقین میں موجود ایک ڈاکٹر نے فوری طور پر طورسم خان کا معائنہ کیا اور انھیں ہسپتال پہنچایا گیا۔ ڈاکٹرز کے مطابق انھیں دل کا دورہ پڑا تھا اور ان کا دماغ بری طرح متاثر ہوا تھا۔ ہدی جہاں اور گوگی علاؤالدین پر سکتہ طاری تھا دونوں کھلاڑی تمام وقت ہسپتال میں موجود رہے تھے۔ طورسم خان چند روز تک لائف سپورٹنگ مشین پر رہے لیکن پھر ڈاکٹروں نے جواب دے دیا۔ روشن خان کے لیے مشین بند کر دینے کا فیصلہ کرنا کسی طور بھی آسان نہ تھا اور انھوں نے دل پر پتھر رکھ کر یہ فیصلہ کیا۔
28 نومبر 1979 کو جیسے جہانگیر خان کی دنیا اندھیری ہو گئی۔ بڑے بھائی کی موت نے ان کے تمام خواب بکھیر کر رکھ دیے تھے۔ تین ماہ تک وہ سکواش سے بالکل دور رہے۔ درحقیقت وہ مزید کھیلنا بھی نہیں چاہتے تھے لیکن پھر انھیں یہ کہہ کر مجبور کیا گیا کہ ورلڈ چیمپیئن بننے کا خواب طورسم خان کا ہی تھا لہٰذا اس خواب کی تکمیل ضروری ہے۔
اس خواب کی تکمیل دو برس بعد 1981 کی ورلڈ اوپن ٹورنٹو میں ہوئی جس میں جیف ہنٹ اپنے عالمی اعزاز کا دفاع کررہے تھے وہ لگاتار چار سال سے عالمی اعزاز جیت رہے تھے اور اسی سال برٹش اوپن کے فائنل میں جہانگیر خان کو ہرا کر انھوں نے ہاشم خان کا سات بار برٹش اوپن جیتنے کا ریکارڈ بھی توڑا تھا لیکن ٹورنٹو میں ان کے مضبوط اعصاب نوجوان جہانگیر خان کے جوشیلے کھیل کے سامنے جواب دینے لگے تھے اور چوتھے گیم میں سکواش کی حکمرانی کا تاج ان کے سر سے اتر کر جہانگیر خان کے سر پر سج چکا تھا۔ یہ 28 نومبر وہی تاریخ تھی جب طورسم خان اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے لیکن دو سال بعد اسی تاریخ کو ان کے خواب کی تعبیر دنیا دیکھ رہی تھی۔
محض 17 سال کی عمر میں ورلڈ چیمپیئن بننے والے جہانگیر خان کے لیے یہ ایک جذباتی موقع تھا کیونکہ وہ خوشی اور غم کی کیفیت کو ایک ساتھ محسوس کر رہے تھے۔

کیریئر پروالدہ کے اثرات:

جہانگیر خان کے کیریئر میں عام طور پر تین اشخاص کے اہم کردار کا ذکر آتا ہے جن میں ان کے والد روشن خان، بڑے بھائی طورسم خان اور چچا زاد بھائی رحمت خان شامل ہیں جو ان کے کوچ بھی رہے لیکن جہانگیرخان کبھی بھی اپنی والدہ کی قربانیوں کو نہیں بھولتے۔
وہ بتاتے ہیں ʹمیں بچپن میں بول نہیں سکتا تھا اور سننے میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا، یہ وہ وقت تھا جب والدہ دیسی ٹوٹکے سے میرا علاج کرتی تھیں۔‘
’میرے کانوں میں تیل ڈالتی تھیں۔ روحانی علاج پر یقین رکھتے ہوئے مجھے دم بھی کرایا کرتی تھیں۔ میں مرچ مصالحے والے کھانے بالکل نہیں کھا سکتا تھا لہٰذا وہ مجھے روٹی پراٹھا بنا کر دودھ میں بھگو کر اپنے ہاتھ سے کھلایا کرتی تھیں۔‘
جہانگیرخان کہتے ہیں ʹپٹھان روایات کی وجہ سے والدہ ہمیشہ پردے میں رہیں اور کبھی بھی انھوں نے سکواش کورٹ میں آ کر مجھے کھیلتے نہیں دیکھا لیکن کھیل کی معلومات نہ ہونے کے باوجود وہ میری کامیابی کے لیے ہر وقت دعاگو رہتی تھیں۔
کھیل کے بارے میں وہ مجھ سے کبھی براہ راست بات نہیں کرتی تھیں البتہ میرے والد سے میری کارکردگی کے بارے میں مستقل پوچھتی رہتی تھیں۔
میرے والد مجھے بتاتے تھے کہ تمہاری والدہ اس وقت تک مصّلے سے نہیں ُاٹھتی تھیں جب تک تم جیت نہیں جاتے۔

کیریئر پروالد کے اثرات:

ذرا سوچیے اگر کسی بچے کے بارے میں اس کے والدین کو یہ معلوم ہو کہ وہ ہرنیا کی بیماری میں مبتلا ہے اور اسے دو مرتبہ آپریشن کے مرحلے سے گزرنا ہو گا تو کیا وہ اپنے بچے کو سکواش جیسا سخت کھیل کھیلنے کی اجازت دیں گے؟
یہ بھی سوچنے والی بات ہے کہ ایک باپ اپنے بڑے بیٹے کو کھیلنے کے دوران زندگی کی بازی ہارتا ہوا دیکھ لے تو کیا وہ اپنے چھوٹے بیٹے کو وہی کھیل کھیلنے کی اجازت دے گا؟
روشن خان، جہانگیرخان کی صحت کے بارے میں بہت فکرمند تھے کیونکہ ڈاکٹرز کہہ چکے تھے کہ جہانگیرخان کی جسمانی حالت ایسی نہیں کہ وہ کبھی بھی سنجیدہ قسم کی سکواش کھیل سکیں۔
روشن خان چونکہ خود عالمی چیمپیئن رہ چکے تھے اور ان کے بڑے بیٹے طورسم خان بھی انٹرنیشنل کھلاڑی تھے لہٰذا کیسے ممکن تھا کہ وہ جہانگیرخان کو اس کھیل سے دور رکھتے۔ جہانگیرخان جب آٹھ سال کے تھے تو روشن خان نے انھیں سکواش ریکٹ دیا جس کی لمبائی کاٹ دی گئی تھی۔ وہ اس ریکٹ کو بیٹے کو دیا گیا کھلونا سمجھ رہے تھے لیکن جہانگیرخان نے ان سے نظریں بچا کر سنجیدگی سے کھیلنا شروع کر دیا تھا۔ گرم موسم کی سختی اور خود اپنی جسمانی حالت کی پرواہ کیے بغیر وہ گھنٹوں فلیٹ کلب کے سکواش کورٹ میں پریکٹس کرنے لگے تھے۔

کیریئر پر بھائی کےاثرات:

بڑے بھائی طورسم خان کو انھوں نے اپنا رول ماڈل بنا رکھا تھا جن کی تصویریں اور اخباری تراشے وہ جمع کرتے تھے۔ شاید انھیں ان میں اپنا عکس نظر آتا تھا کہ وہ بھی ان ہی کی طرح انٹرنیشنل کھلاڑی بنیں۔
وہ انہی کے کہنے پر انگلینڈ میں ان کے پاس رہنے لگے تھے۔ طورسم خان کا خیال تھا کہ وہ انگلینڈ میں تعلیم کے ساتھ ساتھ سکواش بھی بہتر طور پر کھیل سکیں گے۔ جہانگیرخان اپنے بھائی طورسم کے پاس رہ کر ٹریننگ کرتے ہوئے بہت خوش تھے اس دوران انھوں نے 15 سال کی عمر میں دنیا کا سب سے کم عمر ورلڈ امیچر چیمپیئن بن کر سب کو حیران کر دیا تھا۔ جہانگیر خان کی اس جیت میں طورسم خان کی کوچنگ نے کلیدی کردار ادا کیا تھا جو خود انگلینڈ میں تھے لیکن آسٹریلیا میں ہونے والی عالمی چیمپئن شپ میں اپنے چھوٹے بھائی کو فون کر کے ہر میچ سے قبل حریف کھلاڑی سے متعلق معلومات اور حکمت عملی بتا رہے تھے اور جہانگیر خان ان کی ہدایات پر مکمل عمل کر رہے تھے۔ طورسم خان جب آسٹریلین اوپن میں حصہ لینے کے لیے ایڈیلیڈ جانے لگے تو انھوں نے اپنے دیرینہ دوست ہدی جہاں سے کہا کہ انھوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اب اپنا کریئرختم کر کے جہانگیرخان کو ورلڈ چیمپئن بنانے پر توجہ دیں گے۔
جہانگیرخان کا کہنا ہے کہ طورسم خان ان کے لیے سب کچھ تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی موت نے انھیں صدمے سے دوچار کر دیا تھا اور انھوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اب دوبارہ اسکواش نہیں کھیلیں گے۔

ایئرمارشل نورخان کا کردار:

ایئرمارشل نورخان نے پی آئی اے کولٹس سکیم کی بنیاد رکھی تو اس میں جہانگیر خان کو بھی شامل کیا گیا۔ اس وقت انھیں ماہانہ دو سو پچیس روپے ملا کرتے تھے لیکن نوجوان جہانگیر کے لیے زیادہ اہمیت بہترین سہولتوں کے ساتھ سکواش کھیلنے کی تھی۔
جب طورسم خان کا انتقال ہوا تو ایئرمارشل نور خان نے جہانگیرخان کی کم عمری کے باوجود انھیں پی آئی اے میں ملازمت دینے کا فیصلہ کیا اور اسی گروپ چھ میں انھیں ملازمت دی جس گروپ میں طورسم خان تھے۔ اس وقت جہانگیرخان اپنی سترہویں سالگرہ سے بھی چند ہفتے دور تھے۔ ایئرمارشل نورخان کو جب بتایا گیا کہ ادارے کے قواعد وضوابط جہانگیرخان کو ان کی کم عمری کی وجہ سے ملازمت دینے میں رکاوٹ بن رہے ہیں تو انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا تھا کہ آفس قوانین میں ترمیم کرنے کے لیے اگر انھیں صدر مملکت سے بھی بات کرنی پڑی تو وہ کریں گے لیکن وہ اس نوجوان کو پی آئی اے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

جوائس ویڈی کا کردار:

طورسم خان جہانگیرخان کو اپنے ساتھ انگلینڈ لے گئے تاکہ وہ وہاں بہتر ماحول میں سکواش کی ٹریننگ حاصل کر سکیں۔
طورسم خان نے جہانگیر کو انگریزی زبان سکھانے کے لیے ایک پرائیوٹ سکول میں داخل کرا دیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ جہانگیرخان کو سکول کون لے جائے گا۔ یہ ذمہ داری ایک خاتون نے رضاکارانہ طور پر سنبھالی۔ وہ طورسم خان کی دوست جوائس ویڈی تھیں جو آج بھی ومبلڈن سکواش اینڈ بیڈ منٹن کلب سے منسلک ہیں۔ وہ جہانگیرخان کے بارے میں بتاتی ہیں ʹابتدا میں جہانگیر کی انگریزی اچھی نہیں تھی لیکن بعد میں بہتری آتی گئی۔ ہم دونوں سکواش کے بارے میں باتیں کیا کرتے تھے لیکن انگلینڈ کے موسم اور میری ڈرائیونگ کے بارے میں جہانگیرخان کے تبصرے بہت دلچسپ ہوا کرتے تھے۔‘
جہانگیر خان کہتے ہیں کہ جب میں 1993 میں انٹرنیشنل سکواش سے ریٹائر ہوا تھا تو جوآئس نے میرے کریئر کی اہم چیزوں پر مشتمل سکریپ ُبک بھیج کر مجھے حیران کردیا تھا۔ ان کے پاس بعض ایسی یادگار اشیا موجود تھیں جو میرے پاس بھی نہیں تھیں۔‘

رحمت خان کی کوچنگ:

طورسم خان کے انتقال کے بعد جہانگیر خان کی تربیت کی ذمہ داری ان کے چچازاد بھائی رحمت خان نے سنبھال لی تھی جو خود بھی پروفیشنل سکواش کھیل رہے تھے لیکن جہانگیرخان کے لیے انہیں اپنا کریئر ختم کرنا پڑا۔رحمت خان کا کہنا ہے کہ انہیں اچھی طرح یاد ہے جب روشن خان نے ان سے کہا تھا کہ ایک بیٹا چلا گیا اب وہ دوسرا بیٹا کھونا نہیں چاہتے جس پر انہوں نے روشن خان سے کہا تھا کہ یہ طورسم خان کی خواہش تھی کہ جہانگیر ورلڈ چیمپیئن بنے اور ہمیں یہ خواہش پوری کرنی ہے۔ رحمت خان کا کہنا ہے کہ وہ جہانگیرخان کو ٹریننگ کے لیے اپنے ساتھ انگلینڈ لے جانا چاہتے تھے لیکن ائیرمارشل ( ریٹائرڈ ) نورخان کا خیال تھا کہ جہانگیر کو پاکستان میں ہی ٹریننگ کرنی چاہیے تاہم بعد میں انہوں نے انہیں اس بات کی اجازت دے دی کہ جہانگیرخان کو وہ اپنے ساتھ لے جائیں لیکن اس شرط پر کہ جہانگیرخان کو تین سال کے عرصے میں ورلڈ چیمپیئن بنانے کی ذمہ داری قبول کریں بصورت دیگر وہ قوم کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔
جہانگیرخان نے جب رحمت خان کے ساتھ ورلڈ چیمپئن بننے کی ٹریننگ شروع کی تو رحمت خان نے ایک دن انھیں ایک ریکٹ دیا اور کہا کہ اسے توڑو۔
جہانگیرخان حیران ہوئے کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں تاہم اپنے کوچ کے حکم پر انھوں نے اسے گھٹنے پر مارکر توڑ دیا۔
رحمت خان نے اس موقع پر جہانگیر خان کو مزید دو ریکٹس دیے اور کہا کہ ان دونوں کو ایک ساتھ توڑو۔ جہانگیرخان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ رحمت خان کیا چاہتے ہیں لیکن انھوں نے ان کے کہنے پر دونوں ریکٹس کو گھٹنے پر مارکر توڑنا چاہا جو ٹوٹ نہیں پائے اور ُمڑ گئے۔
رحمت خان نے ان سے کہا کہ ایک کو توڑنا آسان ہوتا ہے لیکن دو کو توڑنا مشکل ہوتا ہے لہٰذا اگر ہم ایک ہو کر رہے تو ہمیں کوئی بھی الگ نہیں کر سکے گا۔ دراصل یہ نوجوان جہانگیرخان کے لیے پہلا سبق تھا کہ انھیں اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے کیا کرنا ہے۔

عالمی اعزاز:

جہانگیر خان پہلے برس تو برٹش اوپن نہیں جیت سکے مگر اسی برس انہوں نے اپنے ہم وطن قمر زمان کو ورلڈ اوپن اسکواش ٹورنامنٹ کے فائنل میں شکست دے کر کامیابیوں اور کامرانیوں کے اس سفر کا آغاز کیا جس کی کوئی مثال اسکواش کی دنیا میں توکجا کھیلوں کی دنیا میں بھی دور دور تک نہیں ملتی۔ جہانگیر خان 1993ءتک اسکواش کی دنیا پر راج کرتے رہے اس دوران انہوں نے دنیائے اسکواش کی ہر بڑی چیمپئن شپ جیتی اور 1981ءسے 1986ءتک ہر مقابلے میں ناقابل شکست رہے۔ اپنے کیریئر میں انہوں نے دس مرتبہ برٹش اوپن اور چھ مرتبہ ورلڈ اوپن اسکواش ٹورنامنٹ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔ ان کا 6 مرتبہ ورلڈ اوپن اسکواش ٹورنامنٹ جیتنے کا ریکارڈ تو جان شیر خان توڑ چکے ہیں مگر ان کا 10 مرتبہ برٹش اوپن جیتنے کا ریکارڈ آج بھی برقرار ہے۔ جہانگیر خان کو اسکواش کی عالمی تنظیم ورلڈ اسکواش فیڈریشن کے آئندہ 4 سال کے لیے اعزازی صدر ر ہے، اس سے قبل بھی اسکواش کی عالمی تنظیم کے اعزازی صدر کے طور پر اپنی خدمات سر انجام دے چکے ہیں واضح رہے کہ جہانگیر خان انٹرنیشنل اسکواش سرکٹ میں ایک ناقابل شکست کھلاڑی تصور کیے جاتے تھے جب کہ ان کے حوالے سے یہ بھی مشہور ہے کہ انہوں نے مسلسل 555 میچز میں کامیابی کو اپنے گلے لگایا۔ اس قومی ہیرو کی جگہ کو پُر کرنے والا بھی پاکستانی ہیرو جان شیر خان ہےں، ایک وقت تھا جب اوپن اسکواش چیمپئن شپ میں پہلے اور دوسرے نمبر کے کھلاڑی جہانگیر خان اور جان شیر خان ہوتے تھے لہذا انہیں تسلی ہوتی تھی کہ اب کوئی بھی جیتے سکواش چیمپئن شپ پاکستان میں ہی رہے گی، اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ جہانگیر خان کے بعد جان شیر خان نے اپنا کردار بخوبی نبھایا اور عالمی سطح پر کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے رہے۔

برٹش اوپن سے جذباتی وابستگی:

عالمی چیمپیئن بننے کے پانچ ماہ بعد ہی جہانگیرخان نے برٹش اوپن کا ٹائٹل بھی پہلی بار ہدایت جہاں کو ہرا کر اپنے نام کرلیا۔