یہ مسجد شہر لاہور میں دہلی دروازہ، چوک رنگ محل اور موچی دروازہ سے تقریباً ایک فرلانگ کی دوری پر واقع ہے۔ یہ مسجد نقش ونگار میں کاریگری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ علم الدین انصاری جو عام طور پر نواب وزیر خان کے نام سے جانے جاتے ہیں سلطنت مغلیہ کے عہد شاہجہانی میں لاہور شہر کے گورنر تھے اور یہ مسجد انہی کے نام سے منسوب ہے۔ مسجد کی بیرونی جانب ایک وسیع سرائے ہے جسے چوک وزیر خان کہا جاتا ہے۔ چوک کے تین محرابی دروازے ہیں۔ اول مشرقی جانب چٹا دروازہ، دوم شمالی جانب راجا دینا ناتھ کی حویلی سے منسلک دروازہ، سوم شمالی زینے کا نزدیکی دروازہ-مسجد کے مینار 107 فٹ اونچے ہیں۔
اس کی بنیاد شیخ علم الدین انصاری نے رکھی جو وزیر خان کے خطاب سے مشہور تھے۔ وزیر خان مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے طبیبِ خاص بھی تھے، اِس سے قبل وہ مغل شہنشاہ جہانگیر اور ملکہ نورجہاں کے طبیب خاص بھی رہ چکے تھے۔ شیخ علم الدین انصاری چنیوٹ شہر میں پیشۂ طبابت سے منسلک تھے۔ ماہِ صفر 1030ھ/ جنوری 1621ء میں تلاش معاش کی خاطر مغل دار الحکومت آگرہ پہنچے اور مغل دربار تک مشکل سے رسائی ممکن ہوپائی۔ اُن دنوں ملکہ نورجہاں علیل تھیں، شیخ نے اُن کا علاج کیا اور ملکہ رو بہ صحت یاب ہوئیں۔ اِسی صلہ میں شیخ علم الدین انصاری منصبِ ہفت ہزاری پر فائز کیے گئے اور اُن کا خطاب وزیر خان طے پایا۔ شاہی انعامات کی بھرمار کو مسجد کے مصرف میں لائے اور اِسی خطہ کو تجویز کیا۔ عہد شاہجہانی میں وزیر خان امرا الامراء کے خطاب سے نوازے گئے اور جب شہنشاہ شاہ جہاں لاہور آیا تو اِنہیں ناظم لاہور مقرر کرگیا تھا۔ وزیر خان 1632ء سے 1639ء تک حاکم لاہور کے عہدے پر فائز رہے۔
مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے عہد میں وزیر خان نے 1045ھ/ 1635ء میں اِس مسجد کی بنیاد رکھی اور بازار دہلی دروازہ کو آباد کیا اور مزار سید محمد اسحاق گاذرونی المشہور بہ میراں بادشاہ کا پختہ حجرہ جو زیارت گاہِ عام تھا، کو داخل مسجد کر لیا۔ تقریباً سات سال کی طویل مدت کے بعد یہ مسجد اختتام ماہِ شعبان 1051ھ/ 3 دسمبر 1641ء کو پایہ تکمیل کو پہنچی
