تلاش کریں

تاریخِ پاکستان

711ء میں اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں محمد بن قاسم برصغیر (موجودہ پاکستان و ہندوستان) کے خاصے حصے کو فتح کرتا ہے اور یوں برصغیر (موجودہ پاکستان) دنیا کی سب سے بڑی عرب ریاست کا ایک حصہ بن جاتا ہے، جس کا دارالحکومت دمشق، زبان عربی اور مذہب اسلام تھا۔ یہ علاقہ سیاسی، مذہبی اور ثقافتی طور پر عرب دنیا سے جڑ جاتا ہے۔ اس واقعہ نے برصغیر اور جنوبی ایشیا کی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
اسلامی جمہوریۂ پاکستان جنوبی ايشياء ميں واقع ہے۔ پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران اور جنوب ميں بحيرہ عرب واقع ہيں۔ پاکستان اگر چہ کہ برصغیر کا حصہ شمار کیا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود جنوب مشرق ایشیا میں قائم پاکستان اپنے محل وقوع کے باعث ایک ایسا خطہ ہے جس کا ایک جانب وسطی ایشیا سے تعلق ہے تو دوسری جانب مشرق وسطیٰ سے تعلق ہے جہاں وسطی ایشیا اور مشرق وسطی اور برصغیر کے مابین آمدو ر فت کی تمام چھوٹی بڑی گزرگاہیں لازمی طور پر پاکستان ہی سے گزرتی تھیں اور اب بھی ایسا ہی ہے۔ یہ ہی نہیں قدیم دور میں برصغیر سے چین میں داخلے کا راستہ پاکستان کے شمال مٖغربی علاقے میں موجودگلگت بلتستان کے علاقوں سے گزر تا ہو ا جاتا تھا جو آج پاکستان اور چین کے مابین شاہراہ ریشم کی تعمیر کے نتیجے میں مزید واضح ہو کر سامنے آگیا ہے ۔
مشہور چینی سیاح فاہیان جو اب سے تقریبا دو ہزار سال قبل چین سے برصغیر بد ھ مذہب کی تعلیمات حاصل کرنے کے لیئے برصغیر آیا تھا انہی راستوں کے ذریعے پاکستان میں داخل ہوا تھا۔
دوسری جانب مشرق وسطیٰ افریقہ اور یورپ سے برصغیر اور مشرق بعید ، اور چین جانے کے تمام ہی بحری راستوں میں پاکستان میں واقع بندرگاہیں ان بحری راستوں کا اہم پڑاؤ رہا ہے۔
مراکش کے مشہور سیاح ابن بطوطہ نے جب برصغیر کا سفر کیا تو وہ پہلے مکران کے مختلف شہروں سے سفر کرتا ہوا بلوچستان کے شہر خضدار پہنچا اس کے علاوہ سندھ میں دادو( جو اس زمانے میں سیوستان کہلاتا تھا ) پہنچا پھر وہ موجودہ صوبے پنجاب کے اہم شہر ملتان میں پہنچا جہاں سے پھر وہ دریائے سندھ کو عبور کرکے ہندوستان میں تغلق سلطنت کی حدود میں داخل ہوا ۔ یورپی سیاح مارکوپولو نے جب تیرہویں صدی میں یوروپ کے شہر وینس سے چین کی جانب سفر کیا تو اپنے اس سفر کے دوران بلوچستان کے اہم شہر خضدار میں بھی پہنچا جس کا اس نے اپنے سفر نامے میں تذکرہ کیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا ہم جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات تاریخی حقائق کے طور پر دلائل اور تاریخی ثبوتوں کے ساتھ ہمارے سامنے آتی ہے کہ پاکستان کا اگر چہ کہ برصغیر کے ساتھ انتہائی گہرا تعلق ہے مگر قدیم جغرافیہ دانوں اور تاریخ دانوں نے ہمیشہ پاکستان کے موجودہ خطے کو برصغیر سے جدا ہی تصور کیا ہے کبھی اس خطے کا مجموعی نام سندھ رکھا گیا ہے توکبھی اس خطے کو توران کبھی ،آریان، کہا گیا۔
اپنے اس اہم جغرافیائی محل وقع کے باعث پاکستان کی اہمیت ہمیشہ ہی سے قائم رہی ہے جہاں بیک وقت افریقہ ، مشرق وسطیٰ ،وسطی ایشیا مشرق بعید ، اور یوروپ سے لاکھوں کی تعداد میں اقوام ہزاروں برس سے مستقل آتی رہی ہیں اور بود باش اختیار کرتی چلی آرہی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان دنیا کے ان خطوں میں شمار کیا جاتا ہے جہاں پرہر رنگ و نسل کی اقوام موجود ہیں وہیں بہت سی زبانوں کے بولنے والے بھی موجود ہیں جس کی مثال اسطر ح سے ہے کہ پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع گلگت و بلتستان کے علاقوں میں بے لاکھوں افراد ایسے مقیم ہیں جو کہ یورپی نژاد ہیں ان کے بقول ان کے آبا و اجداد اس علاقے میں سکندر یونانی کے ہمراہ اس کی فوج کشی کے دوران آئے اور ان کے آباء اس علاقے میں مقیم ہوگئے جن کی اولاد آج بھی پاکستان کے اس خطے میں مقیم ہیں اور ان کی ایک علیحدہ زبان بھی ہے جسے کافری زبان کہا جاتا ہے ۔
اسی طرح صوبہ پنجاب کے وسط میں آباد چنیوٹ کی بستی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس علاقے میں چین کے تاجروں اور چینی باشندوں کی بڑی تعداد آباد تھی جس کے باعث اس علاقے کا نام چنیوٹ رکھ دیا گیا
سن 1947ء سے پہلے بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش برطانوی کالونیاں تھیں اور برّصغیر کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ہندوستان کی آزادی (انگریزوں سے) کی تحریک کے دوران ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے لیے ایک علاحدہ ملک کا مطالبہ کیا۔ "پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ" اس تحریک کا مقبول عام نعرہ تھا۔ اس مطالبے کے تحت تحریک پاکستان وجود میں آئی۔ اس تحریک کی قیادت محمد علی جناح نے کی۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان وجود میں آیا۔